کاش میں اج کے دن کچھ تو امیر ہوتا
سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر عابد افریدی نامی صارف نے پچھلے
دنوں میں جانی خیل میں ہونے والے واقعے میں شہید ہونے والے آدمی کی بیٹی کے ساتھ تصویر شئر کرتے ہوئے لکھا
کہ جانی خیل کی وہ ننھی پری جس کی انکھوں کے
سامنے اس کے والد اور بھائی کو لیٹا کر زبحہ کردیا گیا۔وہ بچی جس کی انکھوں کے
سامنے اس کے والد کا سر دھڑ سے الگ کرکے درخت سے لٹکا دیا گیا۔وہ بچی جسے ہاتھ سے
پکڑ کر باہر لایا گیااور باپ کے لٹکے ہوئے سر کے سامنے کھڑا کردیا گیااور زبحہ کرنے
والوں نے اعلان کیا کہ کوئی اس سرکٹی لاش کا جنازہ ادا نہیں کرے گا اور جو قریب
آئے گا وہ ہمارا دشمن ہوگا۔
اس
واقعے کا بہت چرچا ہوامگر بچی کو سینے سے لگانے کوئی منسٹر ،کوئی ایم این اےکوئی
افسر نہیں گیا۔جاتا کیسے؟جانی خیل موت کے جنگل کا نام ہے۔کہتے ہیں کہ جانی خیل موت کے فرشتوں کا گڑھ ہے۔یہاں قاتلوں
کی ٹولیاں گھومتی ہیں ۔میں نے سہمی ہوئی بیٹی سے کہابیٹا میں تمھارا دوست ہوں تمھارا
ساتھی ہوں بتاو اسکول پڑھنے جاوں گی؟ لڑکی نے جواب دیا میری امی کہتی ہے بکریوں
چراو۔ ان کو چرانا ہمارا کام ہے۔میں نے کہا کہ نہیں بیٹی تم اسکول پڑھو۔ تم پڑھائی
کرو۔ تمھارا پڑھ لینا ہی تمھارا بدلہ ہوگا۔
زندگی میں صرف آج امیر ہونے کا ارمان آیا ہے۔ دوستوں دولت واقعی
بہت پیاری چیز ہے کیونکہ آج اگر میرے پاس ہوتی تو
میں اس بچی کی تعلیم تربیت ،اس کی معذور والدہ سب کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا، انھیں
شہر منتقل کرتا،اسکول میں داخل کرواتا۔کاش میں اج کے دن کچھ تو امیر ہوتا۔
باقی
موت کے فرشتوں کو کھلا اعلان ہےہ بچی ہماری ہے اور ہم ان کے
یاد
رہے کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پچھلے جوائنٹ سیشن میں اس واقعے کی
بھر پور مذمت بھی کی تھی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو نوٹس کی اپیل بھی کی
تھی لیکن جوائنٹ سیشن کے دوران اُن کو بولنے نہیں دیا گیا تھا اور اُ ن کا مائک
بند کیا گیا تھا۔
اور
پڑھیں
چارجنگ کے دوران موبائل استعمال سے پھول جیسا حمزہ جاں بحق