ایسا کب تک چلے گا۔
خیبر پختونخوا آجکل چاروں اطراف سے شدت پسندوں کے حملوں کے زد میں ہے، روزانہ اوسطً تین سے چار سے واقعات ہورہے ہیں جس میں بیشتر پولیس اہلکار مارے جارہے ہیں، بالخصوص جنوبی اضلاع کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے جہاں آج بھی چار پولیس اہلکار ہلاک کئے گئے،ٹی ٹی پی نے رواں سال اب تک 325 سے زائد حملوں کے ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا ہے جس میں ایک سو بیس کے لگ بھگ پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ اس طرح کئی سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوچکے ہیں، کالعدم تنظیموں کی طرف سے بھتہ کے کالز معمول بن چکے ہیں جس کی وجہ سے تاجر پیشہ افراد پشاور چھوڑ رہے ہیں، دہشت گردی کے ان واقعات کے خلاف عوام احتجاج بھی کررہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہورہی، وفاقی اور مرکزی حکومتوں نے اختلافات کے باعث دہشت گردی کے واقعات پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جس سے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔دو ہزار سات، آٹھ میں جب سوات میں حالات خراب ہورہے تھے تو ایسا ہی منظر تھا، جنوبی اضلاع میں خوف کے سائے بڑھ رہے ہیں، سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کوئی ادارہ موجود بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری لینے کےلیے تیار نہیں، نہ صوبائی، نہ مرکزی حکومت اور نہ کوئی اور ادارہ۔
ایسا کب تک چلے گا۔
اور پڑھیں
عمران
خان کی کرپشن کی داستانیں، انصافئین کی زبانی
جنرل (ر) فیض حمید کی سیاست میں انٹری